کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر انسان کی جینز کسی جانور میں ڈال دی جائیں تو کیا ہوگا؟ یا کسی جانور کی جینز انسان میں ڈال دی جائیں تو پھر کیا ہوگا؟ جنیٹک انجینئرنگ کی دنیا میں مختلف جانوروں پر آئے روز یہ تجربات کیے جاتے ہیں جن میں دو مختلف جانوروں کا ڈی این اے مکس کرکے ٹرانس جینک جانور پیدا کئے جاتے ہیں۔ لیکن کیا انسان اور جانوروں کا ڈی این اے مکس کرکے کوئی ہائبرڈ جاندار پیدا کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے اخلاقیات اور سائنس کیا کہتی ہے؟ آج کے اس آرٹیکل میں ہم جانیں گے کہ اگر انسان اور جانوروں کا ڈی این اے ملا کر کوئی نیا جاندار بنایا جائے تو اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہی۔


دو مختلف جانوروں کے ڈی این اے کو مکس کرنے کے حوالے سے کیے جانے والے تجربات میں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن انسانوں اور جانوروں کے ڈی این کو مکس کر نے کے حوالے سے تجربات کرنے سے پہلے اس کے اخلاقیاتی پہلوئوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ فرض کریں کہ ایک انسان جس کا جسم گوریلے کی مانند ہو یا پھر کوئی چوہا جو انسان جتنا ذہین ہو تو کیا ایسے جانداروں کا پیدا ہونا درست ہوسکتا ہے یا نہیں۔ہمارے معاشرے میں اگر کوئی شخص دوسروں سے تھوڑا سا مختلف نظر آئے تو معاشرہ اس کو قبول نہیں کرتا اور ایسے شخص کیلئے عموماً زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تو ذرا سوچیں کہ اگر کسی انسان میں جانوروں کی کچھ جینز موجود ہوں جس کی وجہ سے اس میں کچھ جانوروں والی خصوصیات ہوں تو ایسے شخص کیلئے معاشرے میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہوگا۔


سائنسی نقطہ نگاہ سے انسان اور کسی جانور کے ہائبرڈ جاندار کو کائمیرا کہا جاتا ہے۔ کائمیرا ایسا جاندار ہوتا ہے جس کا ڈی این اے دو مختلف انواع سے حاصل شدہ ہوتا ہے۔ سائنسدان پچھلے کئی سالوں سے ایسے تجربات کر رہے ہیں جن میں کسی انسان کے کچھ خلیے کچھ جانوروں جیسا کہ چوہوں وغیرہ میں ڈالے گئے ہیں۔ اسطرح کے ایک تجربے میں ایک چوہے پر انسانی کان اگانے کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے۔ ان تجربات میں کامیابی کی شرح مختلف تجربات میں مختلف رہی ہے۔ کچھ تجربات میں سائنسدان زیادہ کامیاب رہے ہیں جبکہ کچھ میں انہیں بہت کم کامیابی ملی ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں اس قسم کے تجربات پر پابندی ہے اس لئے یہ تجربات عام طور پر گورنمنٹ کی فنڈنگ کے بغیر کیے جاتے ہیں۔


2019 میں جاپان میں یونیورسٹی آف ٹوکیو کے ایک سائنسدان Hiromitsu Nakauchi کی ٹیم کو جاپان کی حکومت کی طرف سے یہ اجازت مل گئی کہ وہ انسانی خلیوں کو جانوروں کے ایمبریو میں امپلانٹ کرسکتے ہیں۔ سائنسدانوں کی اس ٹیم کا خیال تھا کہ اس طرح سے پیدا ہونے والے جانوروں کے اعضاء انسانوں کے اندر بھی ٹرانسپلانٹ کیے جاسکیں گے اور ہمیں انسانوں سے ان اعضاء کو لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دوسرے لفظوں میں ان کا خیال تھا کہ جانوروں کو انسانی اعضاء بنانے کی فیکٹریوں کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کنسیپٹ کو زینوٹرانسپلانٹیشن کہا جاتا ہے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ جانوروں کا ایسا ایمبریو بنایا جائے جس میں کوئی خاص آرگن بنانے والی جین موجود نہ ہو۔ اس جین کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اگر اس ایمبریو میں انسانی سٹیم سیل ڈالے جائیں تو اس طرح بننے والے جانور کا وہ آرگن انسانوں کو بھی لگایا جاسکے گا۔ ان کے خیال میں اس طرح مستقبل میں آرگن ٹرانسپلانٹ کے مریضوں کیلئے ایک بہت بڑی خوشخبری میسر ہوسکتی ہے۔ اس وقت بھی دنیا بھر میں کئی لاکھ مریض ایسے ہیں جو کسی آرگن کی ٹرانسپلانٹیشن کیلئے اس آرگن کی دستیابی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہر سال لاکھوں مریض آرگن ٹرانسپلانٹیشن کیلئے آرگن دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ جاپانی سائنسدانوں کے یہ تجربات تاحال جاری ہیں۔ انہیں مستقبل میں کیا کامیابی ملتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔


ان تجربات کے مثبت پہلوئوں کے باوجود بہت سے سائنسدان ان تجربات کو اچھا نہیں سمجھتے۔ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر انسانی دماغ کے خلیے کسی جانور کے ایمبریو میں ٹرانسپلانٹ کیا جائے تو اس طرح جانوروں کی ذہانت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بہت سے سائنسدان ایسا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ایسا جانور وجود میں آئے جو انسانی ذہانت کا مالک ہو کیونکہ پھر وہ انسانوں والے احساسات کا مالک ہوسکتا ہے۔ ایسے جانور پر کسی قسم کا کوئی تجربہ کرنا بالکل ایسا ہوسکتا ہے جیسے وہ تجربہ کسی انسان پر کیا گیا ہو جبکہ دنیا بھر میں اس بات پر سختی سے پابندی ہے کہ کسی انسان پر کسی قسم کا کوئی سائنسی تجربہ نہیں کیا جاسکتا۔


اب آتے ہیں ان تجربات کے دوسرے پہلو کی طرف کہ کیا ہو اگر کسی انسان میں کسی جانور والی خصوصیت کی جین ٹرانسپلانٹ کی جائے۔ کیا اس سے یہ ممکن ہوگا کہ اس طرح وہ کچھ جان لیوا بیماریوں سے محفوظ رہے؟ کیا اس طرح انسان ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنے کی صلاحیت پا سکتا ہے؟ کیا اس طرح انسان پرندوں کی طرح ہوا میں اڑ سکتا ہے؟ لیکن ان تجربات کی طرف جانے سے پہلے ہمیں ان کے اخلاقی پہلوئوں کا جائزہ لینا ہوگا۔


انسانوں اور جانوروں کے ڈی این اے کو مکس کرنے سے ان دونوں جانوروں میں جینیاتی حدود ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ آج ہم انسان کسی بلی یا بکری سے محبت کرتے ہیں لیکن اگر کسی انسان کے اندر بھی بلی یا بکری کا ڈی این اے موجود ہو تو وہ ان جانوروں کے بارے میں کیا احساس رکھے گا۔ کیا وہ خود کو انسان اور جانوروں کو جانور سمجھ سکے گا؟ انسان اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم مخلوق ہے اور اس میں کسی جانور کی خصوصیت نہ تو اس انسان کو گوارا ہو سکتی ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ کسی ایسے انسان کو قبول کرسکتا ہے جس میں کوئی جانوروں والی خصوصیت ہو۔


اس لئے مستقبل قریب میں ایسے کسی تجربے کو دنیا کے کسی بھی ملک میں قانونی حیثیت ملنے کا امکان نہیں ہے۔ البتہ یہ ٹاپک ہالی ووڈ کی سائنس فکشن فلموں کے پسندیدہ ٹاپکس میں سے ایک ہے۔ ہالی ووڈ کی ایک ایسی ہی فلم میں جس کا نام Splice ہے ایک ایسا ہی تجربہ دکھایا گیا جس میں دو سائنسدان میاں بیوی نے غیر قانونی طور پر انسان اور جانوروں کے ڈی این اے کو مکس کرکے ایک نئی قسم کا جانور لیبارٹری میں بنایا۔ اس فلم میں دکھایا گیا کہ کیسے اس قسم کے تجربات پوری انسانیت کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ تجربات کے نتائج اگر بے قابو ہوجائیں تو پھر انسان ان کے آگے بےبس ہوجاتا ہے۔


تحریر: ڈاکٹر نثار احمد

By Admin