ہماری کائنات میں بلیک ہولز اُن بگڑے ہوئے بچوں کی مانند ہیں، جو فزکس کے قوانین توڑ کر ہمارا منہ چڑاتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن جہاں بلیک ہولز بذاتِ خود پُراسرار شے ہیں وہیں ان کی دریافت بھی پُراسراریت سے خالی نہیں تھی۔ ہم نے دو سال قبل یعنی اپریل 2019ء کو پہلی بار بلیک ہول کا دیدار کیا لیکن جان مشل نے 238 سال پہلے یعنی 1783ء میں کیلکولیشنز کے ذریعے کائنات میں بلیک ہول جیسی پُراسرار شے کی موجودگی کی پیشنگوئی کردی تھی۔ اس ضمن میں عموماً پہلا سوال یہی آتا ہے کہ بلیک ہول کیسے بنتے ہیں؟ ہمیں علم ہے کہ ستارہ جب active ہوتا ہے تو اس دوران ہر ستارے میں دو فورسز کے مابین جنگ چل رہی ہوتی ہے، ایک فورس تو گیس پریشر کی ہوتی ہے جو ستارے کے مرکز میں ہونے والے نیوکلیئر فیوژن ریکشن کی وجہ سے ستارے کو پھُلا رہی ہوتی ہے جبکہ دوسری فورس اس ستارے کی اپنی گریوٹی کی ہوتی ہے جو ستارے کو سمیٹنے کی کوشش کررہی ہوتی ہے۔ دونوں فورسز ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتی ہیں جس وجہ سے ستارے میں ایک بیلنس قائم رہتا ہے اور ستارہ اسٹیبل رہتا ہے لیکن جب سورج سے تیس گنا بڑا ستارہ اپنی طبعی عمر پوری کرکے اختتامی مراحل کی جانب بڑھتا ہے تو وہ ایک زور دار دھماکے سے پھٹتا ہے۔ جس کے بعد ستارے میں نیوکلیئر فیوژن ریکشن رک جاتا ہے، اب ستارے میں ایک فورس ہی باقی رہ جاتی ہے جوکہ اسکی اپنی گریوٹی کی ہوتی ہے، گریوٹی کی وجہ سے ستارہ اپنے ہی آپ میں دبتا چلا جاتا ہے اور بالآخر اس کے مرکز میں سینگولرٹی بن جاتی ہے جس وجہ سے وہ بلیک ہول کا رُوپ دھار لیتا ہے۔ بلیک ہول بن جانے کے بعد اس کے گرد ایک باؤنڈری لائن بن جاتی ہے جسے ایونٹ ہورائزن کہا جاتا ہے، یہ باؤنڈری لائن کراس کرکے اپنے قریب آنے والے کو بلیک ہول نہیں چھوڑتا، اس سرحد کے پار چلے جانے والی شے کا رابطہ ہماری کائنات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کٹ جاتا ہے۔ اسی خاطر کہا جاتا ہے کہ بلیک ہول وہ monsters ہیں جو اپنے نزدیک آنے والی ہر شے کو ہڑپ کرجاتے ہیں۔ یہ وہ کائناتی مقام ہے جہاں ہماری سائنس بےبس ہوجاتی ہے، جس وجہ سے ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں بلیک ہولز کو سمجھنے کے لیے ہمیں مختلف سائنسی ماڈلز اور اصول دریافت کرنے پڑیں گے کیونکہ فی الحال تو یہ ہمارے سائنسی ماڈلز کی دھجیاں بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔