ہماری کائنات ایسی پہیلی ہے جو سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اس میں نئے سے نئے مظاہر ہر آن ہاتھ باندھے ہماری راہ تک رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب فلکیات دان کسی سائنسی مظہر کے متعلق کہتے ہیں کہ “ہم نہیں جانتے” تو سائنسی طلباء excited ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ الفاظ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ یہ مظہر اپنے اندر حیرتوں کا جہاں چھپائے ہوئے ہے۔ہزاروں سال کی جستجو اور ریاضت کے باوجود آج بھی کائنات کی وسعتوں کے بارے میں جب سوال کیا جاتا ہے تو ہمارے پاس یہی جواب ہوتا ہے کہ “ہم نہیں جانتے”، جب ڈارک میٹر ، ڈارک انرجی یا پھر singularity کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ہمارے پاس جواب ہوتاہے کہ “ہم نہیں جانتے”۔ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ مستقبل میں ہمیں بہت کچھ “نیا” سیکھنے کو ملے گا۔ اس مضمون میں ہم ملکی وے کہکشاں کے پڑوس میں دکھائی دینے والی دو پُراسرار کہکشاؤں کے متعلق بات کریں گے اور جانیں گے کہ یہ ہمارا پیچھا کیوں کررہی ہیں۔
ہماری کائنات میں یہ اصول لاگو ہوتا ہے کہ ہر چھوٹی شے اپنے سے بڑی شے کے گرد چکر لگاتی پائی جاتی ہے، اس کی وجہ بنیادی وجہ کشش ثقل ہے جس کے باعث کم کمیت والی اشیاء زیادہ کمیت والی اشیاء کے تابع ہیں۔ آئن سٹائن کا نظریہ اضافت یہ بتاتا ہے کہ ہماری کائنات زمان و مکاں کی چادر پہ مشتمل ہے ، مادہ اس چادر میں گڑھا پیدا کرتا ہے جس کے باعث زیادہ کمیت والامادہ زیادہ بڑا گڑھا پیدا کرے گا جبکہ کم کمیت والا مادہ ہلکا گڑھا پیدا کرے گا۔ زمان ومکاں میں پیدا ہونے والے اِس گڑھے نے ہی ہمارے چاند کو زمین کے گرد چکر لگانے پہ مجبور کیا ہوا ہے، اسی طرح سورج کے باعث پیدا ہونے والا گڑھا تمام سیاروں کو سورج کے گرد چکر لگانے پہ مجبور کرتا ہے، اسی طرح آگے چلیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملکی وے کے تمام ستارے اِس کے وسط میں موجود بلیک ہول کے گرد چکر لگانے میں مصروف ہیں۔اگر ہر شے کسی نہ کسی شے کے گرد چکر لگا رہی ہے تو یہاں پہنچ کےخیال آتا ہے کہ کیا ہماری کہکشاں بھی کسی کے گرد چکر لگانے میں مصروف ہے؟ اس سادے سے سوال کا جواب تھوڑا پیچیدہ ہے۔ ہمیں علم ہے کہ کہکشائیں لوکل گروپ کی شکل میں رہتی ہیں (کائنات میں لوکل گروپ کیسے بنتے ہیں؟ اور کہکشائیں کیسے دریافت ہوئیں؟ یہ سمجھنے کے لیے مضمون کے آخر میں موجود اُردو ڈاکومنٹری دیکھ لیں)، بہرحال ہمارے لوکل گروپ میں ملکی وے سمیت 52 کہکشائیں موجود ہیں، یہ تمام کہکشائیں کشش ثقل کے باعث ایک دوسرے سے بندھی ہوئی ہیں، ان 52 میں سے دو کہکشائیں سب سے بڑی ہیں ،جنہیں ملکی وے اور اینڈرومیڈا کے نام سے جانتے ہیں۔لوکل گروپ میں ان دو دیوہیکل کہکشاؤں کے علاوہ دیگر کہکشائیں بہت چھوٹی ہیں جس وجہ سے ہم انہیں بونی کہکشاں کے نام سے پکارتے ہیں، ان dwarf galaxies میں سے کچھ ایسی ہیں جو ملکی وے کے گرد چکر لگارہی ہیں، جبکہ کچھ ایسی ہیں جو اینڈرومیڈا کا چکر لگارہی ہیں۔ بڑی کہکشاؤں کا چکر لگانے والی ان ننھی کہکشاؤں کو ہم satellite galaxies یا پھر چنداں کہکشائیں بھی کہہ سکتے ہیں۔
بات یہیں تک رہے تو ٹھیک بھی لگتی ہے، مگر فلکیات دانوں کو ایسی ننھی کہکشائیں بھی مل چکی ہیں، جو اِن satellite galaxies کے گرد چکر لگار ہی ہیں۔ہماری کہکشاں کے گرد چکر لگاتی ان satellite galaxies کے متعلق ہمیں تب معلوم ہوا جب ہم کائناتی سمندر میں ڈارک انرجی کو کھوج رہے تھے۔اس ضمن میں زیادہ حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب مشاہدات بتاتے ہیں کہ جو سیٹلائیٹ کہکشائیں ہم نے کھوجی رکھی ہیں ،یہ تو بہت کم ہیں یعنی ملکی وے کے گرد ایسی بہت سی مزید satellite galaxiesموجود ہوسکتی ہیں جنہیں ہم ابھی تک ڈیٹیکٹ نہیں کرپائے، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں ہمارا لوکل گروپ بہت ہی الجھا ہوا ہے، اور یہ سب کچھ انسانیت محض 90 سالوں میں معلوم کرپائی ہے۔چونکہ ان کہکشاؤں میں سے کچھ بہت پرانی بھی ہیں، لہٰذا سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اِن satellite galaxies کو study کرکے ہم جان سکتے ہیں کہ کائنات کے شروع میں کہکشائیں کیسے وجود میں آئیں، ان میں موجود ستارے ہمیں بہت کچھ بتا سکتے ہیں، ڈارک میٹر کے متعلق بھی معلومات دینے میں یہ بونی کہکشائیں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ان satellite galaxies میں سےایک کہکشاں ہے جسے Sagittarius Dwarf کہتے ہیں۔یہ دس ہزار نوری سال وسیع ہے اور ہماری کہکشاں ملکی وے سے 45 ہزار نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے، یہ اس وقت ملکی وے کی جانب دوڑی چلی آرہی ہےاور چند کروڑ سالوں میں اس کا ہماری کہکشاں سے ٹکراؤ ہوجائے گا۔ہمیں جدید تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکی وے کو عظیم کہکشاں بنانے میں اِن بونی کہکشاؤں کا کلیدی کردار ہے،یعنی ماضی میں بہت سی چھوٹی کہکشاؤں کا آپس میں ٹکراؤ ہوتا رہا ہے، یوں اِن ننھی کہکشاؤں نے ملکر ہماری عظیم کہکشاں ملکی وے کو بنایا ہے۔
یہی وجہ ہے آج ہمیں اپنی کہکشاں میں ایسا ستارہ بھی مل چکا ہے جو 13 ارب سال پُرانا ہے یعنی بیگ بینگ کے کچھ عرصے بعد وہ ستارہ وجود میں آگیا تھا، بہرحال سُپر کمپیوٹر کے ذریعے کی جانے والی سیمولیشن کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ہماری جانب بڑھی ہوتی کہکشاں Sagittarius dwarf کا30 سے 90 کروڑ سال پہلے بھی ملکی وے سے بھیانک ٹکراؤ ہوا تھا، جس کے باعث اس کا بہت بڑا حصہ ہماری ملکی وے میں ضم ہوگیا تھا جبکہ کچھ حصہ ملکی وے سے ٹکرا کر آگے چلا گیا تھا جو کچھ دور جاکر رُکا اوراب ملکی وے کی کشش ثقل کے باعث دوبارہ مڑ کر ٹکراؤ کے لئے آرہا ہے۔ سائنسدانوں میں ایک طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہماری ملکی وے میں موجود spiral armsدراصل ایسی ہی بونی کہکشاؤں کے ٹکراؤ کے باعث بنے ہیں، یاد رہے ہمارا سورج بھی Orion arm کاحصہ ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا سورج بھی پہلے کسی اور بونی کہکشاں کا حصہ تھا ؟ اس متعلق ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔یاد رہے کہ اِس وقت بھی آٹھ بونی کہکشائیں ہماری ملکی وے سے ٹکرا رہی ہیں، یہ ٹکراؤ کئی ارب سال تک جاری رہے گا۔ کائنات میں کہکشاؤں کا ٹکرانا نارمل عمل ہے، ان ٹکراؤ کے ذریعے بننے والی نئی کہکشاں میں ستارے تیزرفتاری سے اور زیادہ تعداد میں بنتے ہیں۔بہرحال آنے والے چارارب سالوں میں ہمارے لوکل گروپ کی دیوہیکل کہکشاں اینڈرومیڈا سمیت بہت سی بونی کہکشائیں ہماری ملکی وے سے ٹکرا جائیں گیں، باقی ماندہ سیٹلائیٹ کہکشائیں ایک کھرب سال تک ہمارے ملکی وے میں ضم ہوجائیں گیں، ان سب کے ضم ہونے سے جو دیوہیکل کہکشاں وجود میں آئے گی اس کا نام سائنسدانوں نے ملکومیڈا تجویز کیاہے، اس عظیم ٹکراؤ کے دوران کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہمارا سورج بچ جائے گا جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ چونکہ ہمارا سورج پہلے سے ہی ملکی وے کے کناروں کے قریب واقع ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں ہمارا سورج ملکی وے سے باہر نکل جائے اور آوارہ ہوکر ہمیشہ کے لئے خلاء میں بھٹکتا رہے، کیونکہ ہم اب تک675ایسے intergalactic stars دیکھ چکے ہیں جو اینڈرومیڈا اور ملکی وے کے درمیان خلاء میں آوارہ گھوم پھر رہے ہیں ، ہمارا خیال ہے کہ یہ ستارے ماضی میں ہونے والے کسی ٹکراؤ کے باعث ہماری ملکی وے سے باہر نکل گئے تھے اور آج تک آوارہ خلاء میں بھٹک رہے ہیں۔
بہرحال اگر نظام کائنات ایسے ہی چلتا رہا تو ہمارا اندازہ ہے کہ کائنات کے پھیلنے کے باعث ایک کھرب سال بعد ہمارے لوکل گروپ سے باہر کی کہکشائیں ہم سے اتنی زیادہ دور جاچکی ہونگی کہ ان کی روشنی بھی ہم تک نہیں پہنچ پائے گی، جس کا مطلب ہےکہ اُس وقت اگر ہماری کہکشاں کے کسی سیارے پہ کہیں کوئی انسانوں جیسی intelligent lifeموجود ہوئی تو اس کےلئے کُل کائنات ہماری کہکشاں ہی ہوگی، ان کو نہیں معلوم ہوپائے گا کہ ہماری کائنات میں کبھی دیگر کہکشائیں بھی موجود ہوتی تھیں جو اب ہم سے بہت دُور جاچکی ہیں۔ لہٰذایہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم انسان کائناتی اعتبار سے بہت ہی اچھے وقت میں جی رہے ہیں، جس دوران ہم اپنی کائنات کے متعلق بہت کچھ جان پارہے ہیں۔ چندکھربوں سال بعد آہستہ آہستہ ہماری کہکشاں کے ستارے پھٹ کر بلیک ہول میں تبدیل ہونا شروع ہوجائیں گے، ہماری کائنات میں اندھیرا ہی اندھیرا ہوجائے گا، اُس وقت اگر کسی سیارے پہ کوئی ذہین مخلوق ہوئی تو اس کےلئے کائنات بہت ہی ہیبت ناک ہوگی، ہر جانب بلیک ہولز کا راج ہوگا، مزید چند کھرب سال بعد بلیک ہولز ہاکنگ ریڈیشنز خارج کرتے ہوئے فنا ہوجائیں گے، جس کے باعث پیچھے رہ جانے والے سیارے آوارہ ہوکر ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے، کائنات میں کہیں بھی زندگی کی رمق باقی نہیں رہے گی، کیا خوفناک احساس تنہائی ہوگا، کیسی سنسان ، خاموش اور اندھیرے سے بھری ہوئی کائنات ہوگی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کائنات بہت unpredictable ہے، اس کے متعلق ماضی میں ہمارےبہت سے اندازے غلط ثابت ہوتے آئے ہیں، لہٰذا جب بھی فلکیات دانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کائنات کا اختتام کیسے ہوگا؟ ان کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے “ہم نہیں جانتے”، لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ جواب اپنے اندر حیرتوں کی پوری کائنات سموئے ہوئے ہے۔