سورج چاند زمین اور پورے نظام شمسی (solar system) کی عمر ساڑھے چار ارب سال سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ ساڑھے چار ارب سال پہلے کے وقت سے کچھ مزید پیچھے جائیں تو ہمیں اس جگہ مکمل سکون اور خاموشی ملے گی جہاں آج ہمارا نظام شمسی موجود ہے۔ مرتے ہوئے ستارے اپنے پیچھے باقیات (گیس اور گرد کے بادل) چھوڑ جاتے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی کی تشکیل بھی ایسے ہی ایک سحابیے/نیبولا (nebula) کے اندر ہوئی تھی۔ اس نیبولا میں گیسیں اور گرد کثیف/گھنے تو تھے مگر سکون کی حالت میں تھے۔ اندازہ ہے کہ پھر یہاں ایک ستارے کا سپرنووا (Supernova) دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے سے پیدا ہوئی شاک ویو (shockwave) سے اس نیبولا کے اندر گیسیں اور گرد سُکڑنے لگی۔ یہ کائناتی بادل ایک ڈسک disk کی صورت میں گھومنے لگا۔ نیبولا کی تقریبا تمام کمیت مرکز میں سما گئی۔ اس ڈسک کے مرکز کی کثافت (density) بڑھنے لگی۔ کشش ثقل اور کثافت کی وجہ سے گیسوں کے ایٹمز باہم رگڑ کھانے لگے۔ درجہ حرارت اس حد کو پہنچ گیا کہ ہائیڈروجن کے ایٹمز مل کر بڑے ایٹمز کو وجود دینے لگے۔ یہ ہمارے سورج کی تخلیق اور اس میں نیوکلیئر فشن ری’ایکشن (nuclear fusion reaction) کی شروعات تھی۔ جس نیبولا کے اندر یہ سب ہو رہا تھا، اس نیبولا کی ننانوے 99 فیصد سے زیادہ کمیت سورج کی زیادہ کشش ثقل کی وجہ سے سورج کے شکنجے میں آ گئی۔
سپرنووا دھماکے کی شاک ویو نے اس نیبولا کے اندر موجود ہلکے عناصر کو بہت دور دور تک پھینک دیا۔ ان ہلکے عناصر سے ہمارے نظام شمسی کے گیسی سیاروں (مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون) کی تخلیق ہوئی۔ اس ڈسک کے باقی ماندہ مادے سے سینکڑوں چاند اور دمدار ستارے بھی بن گئے۔ باقی بچا ہوا ملبہ لاکھوں کروڑوں شہابیوں کی صورت میں نظام شمسی کے باہری کناروں پر چکر لگانے لگا۔
بھاری عناصر اس ڈسک کے مرکز (سورج) کے قریب ہی اکٹھا ہونے لگے۔ سورج سے کوئی ایک سو پچاس ملین (پندرہ کروڑ) کلومیٹر دور بھی کچھ بھاری قسم کے عناصر کی جنگ جاری تھی۔ یہ بھاری عناصر ایک جگہ جمع ہو رہے تھے۔ پچیدگیوں اور تباہی و بربادی کی منازل طے کرتے ہوئے بالآخر ان بھاری عناصر نے ایک سیارے کو جنم دیا۔ یہ سیارہ ہمارا گھر یعنی زمین Earth تھی۔ فلکیاتی تحقیقات اور نظام شمسی کے باہری کناروں سے آئی چٹانیں ہمیں بتاتی ہیں کہ تخلیق کا یہ خوبصورت کھیل آج سے ساڑھے چار ارب سال پہلے وقوع پذیر ہوا تھا۔
1۔ جس ریاست کے پاس بڑے اور قاتلانہ صلاحیت سے بھرپور ہتھیار ہیں۔ وہ ریاست اس وقت خود کو محفوظ سمجھے ہوئے ہے۔ لیکن وہ ریاست اپنی جھولی میں انسانیت کی ناپیدگی کی وجہ بننے والے اسباب میں سے ایک سبب لیے بیٹھی ہے۔ موٹر سائیکل کو کِک مار کر اسٹارٹ کرتا ہوا آدمی موٹر سائیکل کےاسٹارٹ ہو جانے پر خوش ہو جاتا ہے۔ کس لیے؟ اس بات پر کہ اس کی سواری تیار ہے۔ لیکن وہ آدمی یہ سوچنا پسند نہیں کرتا کہ موٹر سائیکل کے سائلنسر سے نکلتا دھواں ہمارے گھر (زمین) کے قاتل گروہ کا ساتھی ہے۔ فلاں ملک کے ساحل پر ایک بڑا پروجیکٹ شروع ہو چکا ہے۔ وہاں ایک نیا شہر بسنے جا رہا ہے۔ جس کی کنسٹرکشن اعلی معیار کی ہو گی۔ جدید سہولتوں سے آرستہ وہ شہر بہت وسیع ہو گا۔ یہ ایک خوش کُن تصور ہے مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ “فلاں ملک کے ساحل پر ہم ایک نیا کنکریٹ کا جنگل کھڑا کر کے اپنے گھر (زمین) کے سینے پر ایک نیا خنجر گھونپنے جا رہے ہیں” انسانیت ترقی کرتی جا رہی ہے۔ ہر آنے والا دن ٹیکنالوجی میں ہمیں مزید آگے کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ ہم آگے بڑھ رہے ہیں اس بات میں شبہ نہیں ہے۔ مگر ہمارے پاس ہر بات کو سوچنے کے لیے کئی ایک پہلو ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ انہی میں سے ایک یہ پہلو بھی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی میں آگے ضرور بڑھ رہے ہیں لیکن آگے کیا ہے؟ اس پر غور نہیں کر رہے۔
اگر ہم یہ سمجھتے ہیں ‘کہ پٹرول کا دھواں بننا، ہمارا بنایا ہوا مصنوعی روشنیوں کا سیلاب، جنگوں میں جاری جوہری ہتھیاروں کے جوہری طوفان اور زمین کے چپے چپے پر قائم کارخانوں اور فیکٹری سمیت ٹیکنالوجی کا زیادہ تر حصہ ہماری زمین کی بقا کے لیے یہ سب کچھ غیر مضر نہیں ہیں’ تو ہم دھوکے میں ہیں۔ زمین اور زمین پر بچی ہوئی بقا کی موت کے اسباب میں سے ایک سبب (ٹیکنالوجی) ہم خود تیار کیے بیٹھے ہیں۔
لیکن رکیے! زمین کو صرف ٹیکنالوجی سے خطرات لاحق نہیں ہیں۔ ہماری ٹیکنالوجی سے لاکھوں گنا زیادہ مہلک کچھ قدرتی خطرات بھی روز اول ہی سے زمین کی زندگی کے پیچھے پیچھے بھاگ بھاگ رہے ہیں۔
2۔ زمین کے سینے میں پگھلا ہوا زمین کا مرکز ( Core) ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا۔ ایک دن آئے گا کہ زمین کے مرکز نے ٹھنڈے ہو کر اپنا فریضہ سر انجام دینے سے انکار کر دینا ہے۔ زمین کا مرکز ٹھنڈا ہوتے ہی زمین کا مقناطیسی میدان (magnetic field) بھی اپنی ذمہ داری کا پَٹا اپنے گلے سے اتار پھینکے گا۔ مقناطیسی میدان کے غائب ہوتے ہی زمین کی فضا (Atmosphere) خلا میں تحلیل ہو جائے گی۔ فضا کی عدم موجودگی میں زمین پر سورج کی تابکار و مہلک (الٹراوائلٹ اور انفراریڈ) شعاعین حملہ کر دیں گی۔ اس تابکار حملے سے زمینی جانداروں کی زیادہ تر اقسام (بشمول انسان) کا خاتمہ ہو جائے گا۔ (اگر تب تک ہم موجود ہوئے تو)
3۔ سورج اپنے خاتمے سے پہلے زمین کا خاتمہ کر دے، یہ بھی ممکن ہے۔ اپنی زندگی کے اختتام پر آخری سانسیں لیتے ستاروں کے گرد ان کے سیاروں کی موت ہم جان چکے ہیں۔ زیادہ تر ستارے اپنے اختتام پر اپنا حجم بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ ستاروں کے حجم کا بڑھنا آس پاس موجود سیاروں کو نگل جاتا ہے۔ سیاروں کے لیے اپنے ستاروں کی طرف سے ایک اور خطرہ بھی بنا رہتا ہے۔ مرتے ہوئے ستاروں کی تپش (heat) اور روشنی بڑھ جاتی ہے۔ ایک ارب سال بعد ہمارے سورج کی تپش اور روشنی میں دس گنا تک اضافہ ہو جائے گا۔ اگر تب تک زمین قائم رہی تو زمین پر موجود سمندروں میں پانی کی ایک ایک بُوند سورج کی گرمی کی وجہ سے واقع ہوئے عملِ تبخیر سے خلا میں تحلیل ہو جائے گی۔ زمین پر درجہ حرارت کی شدت سے کم و بیش تمام قسم کی زندگی کا صفایا ہو جائے گا۔ سرسبز و شاداب اور چشموں و جھیلوں سے مُزیّن زمین پر اُس وقت ہر جانب سورج کی خطرناک و تابکار شعاعوں کا راج ہو گا۔ زمین (تخلیق کے بعد) دوسری مرتبہ اپنی اربوں سالہ زندگی کے بدترن دور سے گزر رہی ہو گی۔
4۔ خوش قسمتی سے سورج کے قریب ترین ستاروں میں سے ابھی تک ایسا کوئی بھی ستارہ دریافت نہیں ہوا۔ جو کہ مستقبل قریب میں تباہ کُن موت (Supernova) کی لپیٹ میں آنے والا ہو (بڑے ستاروں کی موت سے جنم لینے والے کائناتی دھماکوں کو سپرنووا کہتے ہیں) مگر بدقسمتی سے ہم پورے وثوق سے یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس متعلق مکمل طور پر مطمئن ہیں۔ کوئی ایسا سپرنووا دھماکہ جو کہ اگر سورج سے دور دس ہزار کھرب کلومیٹر کے دائرے میں واقع ہو گیا تو ممکن ہے کہ اس کائناتی دھماکے سے جنم لینے والی تباہی زمین پر سے اوزون تہہ کے خاتمے کے بعد یہاں سے زندگی کے ایک بڑے حصے کو ختم کر دے۔ خطرات سے گھری ہوئی زندگی کی یہ کشتی (زمین) ایک اور مخفی خطرے سے دو چار ہے۔ یہ سپرنووا سے بھی بڑا خطرہ ہے۔ اسے ہائپرنووا (hypernova) کہا جاتا ہے۔ یہ کائنات میں موجود کچھ بہت ہی بڑے ستاروں کے اختتام پر وجود میں آتا ہے۔ اس دھماکے میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ یہ سپرنووا کے مقابلے میں سینکڑوں ہزاروں گنا زیادہ دوری پر موجود زندگی کا صفایا کر سکتا ہے۔ چند سیکنڈز میں ہائپرنووا دھماکے سے اتنی توانائی خارج ہوتی ہے جتنی توانائی ہمارے سورج نے دس ارب سالوں میں خارج کرنی ہے۔ ہائپرنووا دھماکے سے نکلنے والی گاما-رے برسٹس (GRBs) ہزاروں نوری سال کی مسافتوں پر موجود سیاروں پر زندگی کی بِچھی ہوئی بساط کو الٹ پلٹ کر سکتی ہیں۔ اس میں ہمارے لیے تسلی بخش بات یہ ہے کہ ہمارے مشاہدے میں آئے آج تک کے تمام تر ہائپرنووا دھماکے کائنات میں بہت ہی دور کی کہکشاؤں میں واقع ہوئے ہیں۔ لیکن ہم اپنی کہشاں کے ہر ایک ستارے سے آگاہ نہیں ہیں۔ لہذا یہ ہائپرنووا والا خطرہ بھی ہمارے سر پر ننگی تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔
5۔ زمین پر آپ سے پہلے “آپ” موجود نہیں تھے، یہ درست ہے۔ زمین پر آپ سے پہلے کوئی دوسرا بھی موجود نہیں تھا، یہ درست نہیں ہے۔ یعنی زمین پر بسنے والی پہلی مخلوق انسان ہی ہے، ایسا دعوی غیر مستند و غیر معقول ہے۔ امریکی ریاست میکسیکو کے خلیج میں یوکاتان کے نیچے آج بھی دو سو کلومیٹر عرض کا حامل وہ گڑھا موجود ہے جس کے بارے میں کمپیوٹر سمیولیشنز بتاتی ہیں کہ تقریبا ساڑھے چھ کروڑ سال قبل میکسیکو کےخلیج میں خلا سے آیا ہوا بارہ 12 کلومیٹر لمبا چوڑا شہابیہ (asteroid) ٹکرایا تھا۔ جس کے نتیجے میں زمین سے 75 فیصد زندگی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس ہولناک ٹکراؤ کے نتیجے میں ڈائناسار اور ان جیسے عظیم الجثہ جانوروں کا بھی صفایا ہو گیا تھا۔ شمال مشرق کی طرف سے آ کر ساٹھ ڈگری کے زاویے سے ٹکرانے والے اس شہابیے نے زمین کے ماحول کو کروڑوں سال کے لیے بدل کے رکھ دیا تھا۔ یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ نظام شمسی میں لاکھوں کروڑوں بے لگام شہابیے ادھر سے ادھر پھر رہے ہیں۔ تو کیا ہم محفوظ ہیں؟ اس کا اندازہ آپ یہاں سے لگا لیجیے کہ آج سے ٹھیک دو دن بعد (march اکیس 2021) کے دن زمین کے پاس سے رواں سال کا سب سے بڑا شہابیہ گزرنے والا ہے!
6۔ چاند کی کشش ثقل سے زمینی سمندروں میں مد و جزر پیدا ہوتا ہے۔ یہ مد و جزر جہاں چاند کو زمین سے دور کرنے کا سبب بن رہا ہے وہیں زمین کی محوری گردش کو آہستہ کر رہا ہے۔ چاند زمین سے بہت دور زیادہ ہو گیا تو کیا زمین کا اپنے محور پہ مخصوص (زندگی موافق) جھکاؤ قائم رہ پائے گا؟ اس متعلق جواب کچھ اطمینان بخش نہیں یے۔ اگر زمین اپنے محور پر لیٹ گئی یا پھر زمین کا یہ جھکاؤ ختم ہو گیا تو زمین سے موسموں کی رخصتی ہو جائے گی۔ دوسری طرف اگر زمین کی محوری گردش کی رفتار کم ہوتے ہوتے رات و دن کے موجودہ نظام کو بدل گئی تو زمین کے درجہ حرارت کا نظام بگڑ جائے گا۔ یہ خطرہ بھی ہمارے سروں پر بدستور کھڑا ہے۔
7۔ ان تمام خطرات سے بچ نکلنے والی زمین کے مقدر میں ایک اور ممکنہ مصیبت کھڑی ہے۔ زمین کے اپنے ہمسائے سیارے، عطارد زہرہ اور مریخ۔ کمپوٹر ماڈلز سے یہ امکان بھی سامنے آیا ہے کہ ہو سکتا ہے چند ارب سال بعد زمین، عطارد زہرہ یا مریخ سے ٹکرا کر ختم/تباہ ہو جائے۔ زمین کی ٹیکٹانک پیلٹوں کا جگہ بدلنا بھی قابلِ فکر بات ہے۔ زمین کی تباہی کے لیے کافی ثابت ہونے والے امکانات میں یہ امکان بھی بہرحال موجود ہے۔ زمین کے اپنے اندر موجود لاوے کا سمندر بھی زمینی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ زمین پر سے برفانی خطوں کا خاتمہ زمینی سمندروں کو بلند کر سکتا ہے۔
سورج یا چاند کی تباہی/عدم موجودگی بھی زمین کے وجود پر سوالیہ نشان ہے۔
• خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین کو درپیش خطرات میں سے زیادہ تر ممکنہ خطرات کا ابھی وقت بہت دور ہے۔ اور یہ بھی کہ ان میں سے ایک خطرے (ٹیکنالوجی سے پیدا ہوئیں زندگی مخالف سرگرمیوں) کو ہم کسی حد تک کنٹرول کر سکتے ہیں۔
31 جنوری 2014 کی یہ ایک حسین شام ہے۔ لیکن یہ شام اس سرخ سیارے کی سطح پر نمودار ہوئی ہے، جس سیارے پر ہماری نگاہیں زندگی کا کوئی دوسرا ٹھکانہ ڈھونڈ رہی ہیں۔ مریخ mars پر سورج غروب ہونے کے اسی 80 منٹس بعد Curiosity rover پر لگے کیمرے نے آسمان کو دیکھا۔ اس کیمرے کو آسمان پر جگمگاتے دو روشن ترین ستارے باہم قریب قریب نظر آئے۔ اس کیمرے نے ان دونوں روشن ستاروں کی تصویر بنا کر ہمیں بھیج دی۔ وہ دونوں روشن ترین ستارے زمین اور زمین کا چاند تھے۔ سات ارب سے زائد انسانوں اور ستاسی لاکھ اقسام کی زندگی کا گھر (زمین) خلا میں معلق کسی قُمقُمے کی طرح روشن تھا۔ فضا، اوزون، پانی، ہوا، درخت، پہاڑ، صحرا، عمارات اور تمام خوبصورت خطرناک طاقتور کمزور قسم کی مخلوقات، ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی خواہشات رکھنے والے کچھ شیدائی، روز اول سے اب تک مر جانے والوں کی قبریں اور باقیات، یہ سب ہی کچھ Curiosity rover کے کیمرے میں جگمگا رہے اس روشن ستارے (زمین) ہی پر موجود تھا۔
سوچیں کہ اگر Curiosity rover کی جگہ مریخ کی سطح پہ ہم خود شام کے آسمان پر یوں اپنے گھر (زمین) کو ٹمٹماتے ہوئے ستارے کی مانند دیکھیں تو وہ کیسا سماں ہو گا۔ خوبصورت آسمان پر ایک بے حد حسین چمکتا نقطہ! ہاں وہی ہماری زمین ہو گی۔ مگر ایک وقت آئے گا کہ آسمان پر چمکتا یہ نقطہ اپنا وجود کھو کر موت کو گلے لگا لے گا!